توڑ کڑیاں ضمیر کہ انجمؔ
اور کچ دیر تو بھی جی انجمؔ
ایک بھی گام چل نہ پائے گی
ان اندھیروں میں روشنی انجمؔ
زندگی تیز دھوپ کا دریا
آدمی ناؤ موم کی انجمؔ
جس گھٹا پر تھی آنکھ صحرا کہ
وہ سمندر پہ مر مٹی انجمؔ
جس پہ سورج کہ مہربانی ہو
اس پہ کھلتی ہے چاندنی انجمؔ
صبح کا خواب عمر بھر دیکھا
اور پھر نیند آ گئی انجمؔ
غزل
توڑ کڑیاں ضمیر کہ انجمؔ
انجم لدھیانوی