تو پہلے میرا ہی حال تباہ لکھ لیجے
پھر اپنے آپ کو عالم پناہ لکھ لیجے
کتاب صحرا میں ذکر آئے جب سمندر کا
مری حیات کسی کی نگاہ لکھ لیجے
دیوں کے قتل پہ سورج کی ہر کرن چپ ہے
اس احتیاط کو جشن سیاہ لکھ لیجے
لبوں پہ امن کے نغمے دلوں میں جنگ کی آگ
شکست عزم بنام سپاہ لکھ لیجے
وہ میرے قتل کا ملزم ہے لوگ کہتے ہیں
وہ چھٹ سکے تو مجھے بھی گواہ لکھ لیجے
میں اپنے گھر کی تباہی سنبھال لوں گا مگر
زمانے بھر کا مجھے سربراہ لکھ لیجے
خطائیں اتنی ہیں بیکلؔ مجھے نہیں معلوم
یہی سزا ہے مرا ہر گناہ لکھ لیجے
غزل
تو پہلے میرا ہی حال تباہ لکھ لیجے
بیکل اتساہی