تو ہی نہ سنے جب دل ناشاد کی فریاد
پھر کس سے کریں ہم تری بیداد کی فریاد
تیشے کی وہ کھٹ کھٹ کا نہ تھا غلغلہ یارو
کی غور تو وہ تھی دل فرہاد کی فریاد
کل رات کو اس شوخ کی جا کر پس دیوار
اک درد فراہم نے جو بنیاد کی فریاد
سنتے ہی کہا اس نے کہ ہاں دیکھو تو اس جا
کس نے یہ بلکتی ہوئی ایجاد کی فریاد
فریاد نظیرؔ آگے ہی اس کے ہے بہت خوب
واں دیکھنے کا دیکھنا فریاد کی فریاد

غزل
تو ہی نہ سنے جب دل ناشاد کی فریاد
نظیر اکبرآبادی