EN हिंदी
تو ہی نہ سنے جب دل ناشاد کی فریاد | شیح شیری
to hi na sune jab dil-e-nashad ki fariyaad

غزل

تو ہی نہ سنے جب دل ناشاد کی فریاد

نظیر اکبرآبادی

;

تو ہی نہ سنے جب دل ناشاد کی فریاد
پھر کس سے کریں ہم تری بیداد کی فریاد

تیشے کی وہ کھٹ کھٹ کا نہ تھا غلغلہ یارو
کی غور تو وہ تھی دل فرہاد کی فریاد

کل رات کو اس شوخ کی جا کر پس دیوار
اک درد فراہم نے جو بنیاد کی فریاد

سنتے ہی کہا اس نے کہ ہاں دیکھو تو اس جا
کس نے یہ بلکتی ہوئی ایجاد کی فریاد

فریاد نظیرؔ آگے ہی اس کے ہے بہت خوب
واں دیکھنے کا دیکھنا فریاد کی فریاد