تشنۂ تکمیل ہے وحشت کا افسانہ ابھی
واقف سود و زیاں ہے تیرا دیوانہ ابھی
کیوں نہ ہو قربان شمع حسن کے جلووں پہ دل
اپنے جلووں سے ہے ناواقف یہ پروانہ ابھی
گل چراغ دیر ہے خاموش ہے شمع حرم
ساقیا روشن ہے تیرے دم سے مے خانہ ابھی
یا تجلی طور کی ہے خود حجاب اندر حجاب
یا نہیں ذوق نظر اپنا کلیمانہ ابھی
دور ہے منزل مری اک جام اے پیر مغاں
راہ میں آئیں گے کعبہ اور بت خانہ ابھی
داستاں منصورؔ کی بے کیف ہو سکتی نہیں
مدتوں دہرائے گی دنیا یہ افسانہ ابھی

غزل
تشنۂ تکمیل ہے وحشت کا افسانہ ابھی
گیان چند منصور