تری یادوں نے تنہا کر دیا ہے
مجھے اندر سے صحرا کر دیا ہے
خفا ہو کر شعاع مہر نے بھی
مرے آنگن کو سونا کر دیا ہے
سیاہی کس کی نظروں میں بھری ہے
دلوں کو کس نے کالا کر دیا ہے
یہ کس نے آئینوں پر گرد پھینکی
ہر اک منظر کو دھندلا کر دیا ہے
کسی بھی شاخ پر پتا نہیں ہے
ہوا نے سب کو ننگا کر دیا ہے
زمانؔ اب روشنی کا ذکر کیسا
مجھے سورج نے اندھا کر دیا ہے
غزل
تری یادوں نے تنہا کر دیا ہے
زمان کنجاہی