EN हिंदी
تری یادوں نے تنہا کر دیا ہے | شیح شیری
teri yaadon ne tanha kar diya hai

غزل

تری یادوں نے تنہا کر دیا ہے

زمان کنجاہی

;

تری یادوں نے تنہا کر دیا ہے
مجھے اندر سے صحرا کر دیا ہے

خفا ہو کر شعاع مہر نے بھی
مرے آنگن کو سونا کر دیا ہے

سیاہی کس کی نظروں میں بھری ہے
دلوں کو کس نے کالا کر دیا ہے

یہ کس نے آئینوں پر گرد پھینکی
ہر اک منظر کو دھندلا کر دیا ہے

کسی بھی شاخ پر پتا نہیں ہے
ہوا نے سب کو ننگا کر دیا ہے

زمانؔ اب روشنی کا ذکر کیسا
مجھے سورج نے اندھا کر دیا ہے