EN हिंदी
تری امیدوں کا ساتھ دے گی عنایت برگ و بار کب تک | شیح شیری
teri umidon ka sath degi inayat-e-barg-o-bar kab tak

غزل

تری امیدوں کا ساتھ دے گی عنایت برگ و بار کب تک

گلزار بخاری

;

تری امیدوں کا ساتھ دے گی عنایت برگ و بار کب تک
بہار ہے مہربان تجھ پر مگر رہے گی بہار کب تک

جلائی تو نے اگر نہ مشعل کوئی چراغ اور ڈھونڈ لیں گے
جنہیں ضرورت ہے روشنی کی کریں گے وہ انتظار کب تک

خیال توسیع و رفعت بام و در کی خواہش بجا ہے لیکن
مکان کا بوجھ سہہ سکے گی بنائے ناپائیدار کب تک

تجھے گماں ہے کہ خواب تیرے شکست سے ماورا ہیں شاید
تجھے بچائے گا سنگ باری سے آئنوں کا حصار کب تک

کبھی تو گل زار بارشوں سے چمن کا ماحول صاف ہوگا
فضا میں پھیلائے گا کدورت ہوا سے اڑتا غبار کب تک