تری طرف سے دل اے جان جاں اٹھا نہ سکے
بہت ضعیف تھے بار گراں اٹھا نہ سکے
ہزار بار بہار آئی لیکن اے صیاد
نگاہ ہم طرف بوستاں اٹھا نہ سکے
اسیر زلف جو مرتے ہیں تو وہ کہتے ہیں
ذرا بھی صدمۂ قید گراں اٹھا نہ سکے
سنیں جو یار کی باتیں غش آ گیا ہم کو
یہ ناتواں تھے کہ لطف بیاں اٹھا نہ سکے
غزل
تری طرف سے دل اے جان جاں اٹھا نہ سکے
خواجہ محمد وزیر لکھنوی

