EN हिंदी
تری تلاش میں ہے سائبان بھی ہم بھی | شیح شیری
teri talash mein hai saeban bhi hum bhi

غزل

تری تلاش میں ہے سائبان بھی ہم بھی

نبیل احمد نبیل

;

تری تلاش میں ہے سائبان بھی ہم بھی
ہمارے ساتھ ہماری تھکان بھی ہم بھی

فلک کو چھونے کی خواہش ہزار دل میں لیے
کہ سرگراں ہے ہماری اڑان بھی ہم بھی

ہے انتظار میں برسوں سے رہنماؤں کے
ہماری منزل جاں کا نشان بھی ہم بھی

وہی ہے نوک سنان ستم گران جہاں
وہی ہے کرب و بلا امتحان بھی ہم بھی

اسی کا نام لیے جائیں گے قیامت تک
ہمارے ساتھ رہے گی اذان بھی ہم بھی

تلاش منزل ہستی میں اک زمانہ ہوا
بھٹکتے پھرتے ہیں سب کاروان بھی ہم بھی

اسی پرانی کہانی پہ ہم جیے جائیں
وہی حوالے وہی داستان بھی ہم بھی

نبیلؔ روز ازل سے تھے جیسے ویسے ہیں
ستم گروں کے ستم ہیں لگان بھی ہم بھی