تری صورت مجھے بتاتی ہے
یاد میری تجھے بھی آتی ہے
اس کے اک بار دیکھنے کی ادا
دل میں سو حسرتیں جگاتی ہے
میرے دل میں وہ آئے ہیں ایسے
جیسے آنگن میں دھوپ آتی ہے
خواب میں جب بھی دیکھتا ہوں اسے
نیند آنکھوں سے روٹھ جاتی ہے
اپنی مرضی سے ہم نہیں چلتے
کوئی طاقت ہمیں چلاتی ہے
ہم ہیں تہذیب کے علمبردار
ہم کو اردو زبان آتی ہے
میں تو ساحل ہوں موج دریا کی
مجھ کو خود ہی گلے لگاتی ہے
غزل
تری صورت مجھے بتاتی ہے
محمد علی ساحل