EN हिंदी
تری شکست کا اعلان تو نہیں کریں گے | شیح شیری
teri shikast ka elan to nahin karenge

غزل

تری شکست کا اعلان تو نہیں کریں گے

ثناء اللہ ظہیر

;

تری شکست کا اعلان تو نہیں کریں گے
جو تیرا کام ہے دربان تو نہیں کریں گے

سیاہ رات کے آنگن میں کود کر ہم لوگ
دیے جلائیں گے نقصان تو نہیں کریں گے

میں اپنی ذات کی حیرت سرا سے گزرا ہوں
یہ تجربے مجھے حیران تو نہیں کریں گے

یہ ٹھیک ہے کہ ضروری ہے کار گریہ بھی
مگر یہ ہجر کے دوران تو نہیں کریں گے

یہ سوچنا تھا تمہیں دائرے بناتے ہوئے
یہ پیچ تم کو پریشان تو نہیں کریں گے

ظہیرؔ اس کی رگوں کو لہو پلا کر ہم
زمین پر کوئی احسان تو نہیں کریں گے