تری شکست کا اعلان تو نہیں کریں گے
جو تیرا کام ہے دربان تو نہیں کریں گے
سیاہ رات کے آنگن میں کود کر ہم لوگ
دیے جلائیں گے نقصان تو نہیں کریں گے
میں اپنی ذات کی حیرت سرا سے گزرا ہوں
یہ تجربے مجھے حیران تو نہیں کریں گے
یہ ٹھیک ہے کہ ضروری ہے کار گریہ بھی
مگر یہ ہجر کے دوران تو نہیں کریں گے
یہ سوچنا تھا تمہیں دائرے بناتے ہوئے
یہ پیچ تم کو پریشان تو نہیں کریں گے
ظہیرؔ اس کی رگوں کو لہو پلا کر ہم
زمین پر کوئی احسان تو نہیں کریں گے

غزل
تری شکست کا اعلان تو نہیں کریں گے
ثناء اللہ ظہیر