EN हिंदी
تری نگہ سے اسے بھی گماں ہوا کہ میں ہوں | شیح شیری
teri nigah se ise bhi guman hua ki main hun

غزل

تری نگہ سے اسے بھی گماں ہوا کہ میں ہوں

ضیا جالندھری

;

تری نگہ سے اسے بھی گماں ہوا کہ میں ہوں
وگرنہ دل تو مرا مانتا نہ تھا کہ میں ہوں

عجیب لمحہ وہ دیدار حسن یار کا تھا
اس ایک پل کی تجلی میں یہ کھلا کہ میں ہوں

نہ جانے بے خبری کے وہ کس مقام پہ تھا
نظر اٹھاتا تو ہر گل پکارتا کہ میں ہوں

ترے جمال کی کچھ روشنی سی پڑتی ہے
بتا رہا ہے مجھے رنگ آئنا کہ میں ہوں

جسے بھلا کے یہ دل مطمئن تھا مدت سے
کل اس کے ذکر پہ اک عہد بول اٹھا کہ میں ہوں

پر زمانہ تو پرواز نور سے بھی ہے تیز
کہاں ہے کون تھا جس نے ابھی کہا کہ میں ہوں

کہاں پہ سرحد نا بود و بود ملتی ہے
ثبوت ہو کہ نہ ہو اعتبار کیا کہ میں ہوں

حیات خود ہے دہان نہنگ لا یعنی
جو ہے عدم کا مسافر ہے میں چلا کہ میں ہوں

نہ رفتگاں ہیں نہ اب یاد رفتگاں باقی
میں کیا ہوں جز رم یک موجۂ فنا کہ میں ہوں

مجھ ایسے ذروں کا ہونا نہ ہونا ایک سا ہے
بگولے ان سے اٹھے تو پتہ چلا کہ میں ہوں

کھلا پڑا ہے سر راہ بے حس و حرکت
جو ہاتھ کل تک اٹھا چیختا رہا کہ میں ہوں

ابھی طریق تحمل نہیں مزاجوں میں
ابھی فقیہوں میں ہنگامہ ہے بپا کہ میں ہوں

کہیں کہیں ابھی توقیر لفظ باقی ہے
سخن سنائی دیا حرف درد کا کہ میں ہوں

عجیب عالم ہو تھا ضیاؔ جب آخر شب
کسی کو دل نے یہ کہتے ہوئے سنا کہ میں ہوں