تری نگاہ کی جب سے معاونت نہ رہی
کسی کے دل میں مری قدر و منزلت نہ رہی
دو ایک پل ہی کوئی مجھ پہ ملتفت تھا مگر
تمام عمر کسی سے مخاصمت نہ رہی
رہا نہ قبضہ ترے دل پہ تو تعجب کیا
مری تو اپنے علاقے پہ سلطنت نہ رہی
کوئی بھی واقعہ ہو پر سکوں ہی رہتا ہے
لہو میں پہلی سی موج مزاحمت نہ رہی
خبر نہیں ہے وہاں گل کھلے کہ دھول اڑے
غزال دشت سے میری مراسلت نہ رہی
شہ سخن سے ترے کون متفق نہ ہو اب
کہ میرے بعد صدائے مخالفت نہ رہی
سلیمؔ لب پہ سجاتا تھا جیسے لفظ وہی
کہ اس کے بعد سخن میں وہ تمکنت نہ رہی
غزل
تری نگاہ کی جب سے معاونت نہ رہی
سلیم سرفراز