EN हिंदी
تری نگاہ کی جب سے معاونت نہ رہی | شیح شیری
teri nigah ki jab se muawanat na rahi

غزل

تری نگاہ کی جب سے معاونت نہ رہی

سلیم فراز

;

تری نگاہ کی جب سے معاونت نہ رہی
کسی کے دل میں مری قدر و منزلت نہ رہی

دو ایک پل ہی کوئی مجھ پہ ملتفت تھا مگر
تمام عمر کسی سے مخاصمت نہ رہی

رہا نہ قبضہ ترے دل پہ تو تعجب کیا
مری تو اپنے علاقے پہ سلطنت نہ رہی

کوئی بھی واقعہ ہو پر سکوں ہی رہتا ہے
لہو میں پہلی سی موج مزاحمت نہ رہی

خبر نہیں ہے وہاں گل کھلے کہ دھول اڑی
غزال دشت سے میری مراسلت نہ رہی

شہ سخن سے ترے کون متفق نہ ہو اب
کہ میرے بعد صدائے مخالفت نہ رہی

سلیمؔ لب پہ سجاتا تھا جیسے لفظ وہی
کہ اس کے بعد سخن میں وہ تمکنت نہ رہی