EN हिंदी
تری نظر کے اشارہ بدل بھی سکتے ہیں | شیح شیری
teri nazar ke ishaare badal bhi sakte hain

غزل

تری نظر کے اشارہ بدل بھی سکتے ہیں

اشفاق رشید منصوری

;

تری نظر کے اشارہ بدل بھی سکتے ہیں
میرے نصیب کے تارے بدل بھی سکتے ہیں

میں اپنی ناؤ بھنور سے نکال لایہ ہوں
مگر یہ ڈر ہے کنارے بدل بھی سکتے ہیں

امیر شہر کی تقریر ہونے والی ہے
سحر تلک یہ نظارے بدل بھی سکتے ہیں

یہ دور وہ ہے کہ غیروں کا کیا کہیں صاحب
ہمارے حق میں ہمارے بدل بھی سکتے ہیں