تری مدد کا یہاں تک حساب دینا پڑا
چراغ لے کے مجھے آفتاب دینا پڑا
ہر ایک ہاتھ میں دو دو سفارشی خط تھے
ہر ایک شخص کو کوئی خطاب دینا پڑا
تعلقات میں کچھ تو درار پڑنی تھی
کئی سوال تھے جن کا جواب دینا پڑا
اب اس سزا سے بڑی اور کیا سزا ہوگی
نئے سرے سے پرانا حساب دینا پڑا
اس انتظام سے کیا کوئی مطمئن ہوتا
کسی کا حصہ کسی کو جناب دینا پڑا
غزل
تری مدد کا یہاں تک حساب دینا پڑا
حسیب سوز