تری جستجو میں دیکھا میں کہاں کہاں سے گزرا
کبھی اس زمیں کو روندا کبھی آسماں سے گزرا
ترے غم میں دو جہاں سے جو بچا لیا ہے دامن
کبھی ایسا بھی ہوا ہے غم دو جہاں سے گزرا
مرے نقش ہائے الفت یہ بتا رہے ہیں سب کو
میں کہاں کہاں پہ ٹھہرا میں کہاں کہاں سے گزرا
یہ مساجد و منادر مرے کام کچھ نہ آئے
ترے عشق میں جو گزرا تو میں اپنی جاں سے گزرا
تو خبیر بھی ہے کامل تو علیم بھی ہے مطلق
ترے سامنے کہوں کیا میں کہاں کہاں سے گزرا
کبھی وہ تھے مجھ سے برہم کبھی مجھ پہ مہرباں تھے
کہ فگارؔ عشق میرا کڑے امتحاں سے گزرا
غزل
تری جستجو میں دیکھا میں کہاں کہاں سے گزرا
فگار مرادآبادی