تری جب نیند کا دفتر کھلا تھا
یقیناً ایک اک منظر کھلا تھا
اسے تم چاند سے تشبیہ دینا
کہ اس کے ہاتھ میں خنجر کھلا تھا
سنا دیوار و در کیا کہہ رہے ہیں
ہماری پیٹھ پر نشتر کھلا تھا
نہیں کہ تنگ تھیں اپنی قبائیں
تمہارے جسم کا پیکر کھلا تھا
بدلتے موسموں کی تان ٹوٹی
گھٹاؤں پر مرا ساغر کھلا تھا
پری پیکر سے جب بھی بات ہوتی
مزے کی بات ہے اکثر کھلا تھا
کسی کے ہاتھ سوئے تھے سرہانے
کسی کے ہاتھ میں خنجر کھلا تھا
اڑانیں جب بھی تھیں محدود کھلرؔ
ہمارے نام کا شہ پر کھلا تھا
غزل
تری جب نیند کا دفتر کھلا تھا
وشال کھلر