تری گلی سی کسی بھی گلی کی شان نہیں
کہ اس زمین پہ سنتے ہیں آسمان نہیں
مژہ سے بڑھ کے نہیں ہے جو کوئی تیر حسیں
تمہارے ابرو سے دل کش کوئی کمان نہیں
سسک رہے ہیں جو سڑکوں پہ سینکڑوں انساں
تمہارے شہر میں شاید کوئی مکان نہیں
یہیں بہشت ہے یارو یہیں ہے دوزخ بھی
کہ اس جہان سے آگے کوئی جہان نہیں
مری خموشی کا مطلب نہیں قرار و سکوں
بھرا ہے درد سے دل طاقت بیان نہیں
عدو کو دیتے ہیں ترجیح مجھ سے خادم پر
برے بھلے کے پری وش مزاج دان نہیں
ہمارے شہر میں ہر ایک اس طرح چپ ہے
کہ جیسے منہ میں کسی شخص کے زبان نہیں
یہ اشک منزل آخر ہیں عشق کی ہمدم
کہ ان ستاروں سے آگے کوئی نشان نہیں
ہو فخرؔ خاک مجھے قوم کی ترقی پر
جو فرد قوم یہ مزدور اور کسان نہیں

غزل
تری گلی سی کسی بھی گلی کی شان نہیں
فخر زمان