EN हिंदी
ترے تغافل سے ہے شکایت نہ اپنے مٹنے کا کوئی غم ہے | شیح شیری
tere taghaful se hai shikayat na apne miTne ka koi gham hai

غزل

ترے تغافل سے ہے شکایت نہ اپنے مٹنے کا کوئی غم ہے

سجاد باقر رضوی

;

ترے تغافل سے ہے شکایت نہ اپنے مٹنے کا کوئی غم ہے
یہ سب بظاہر بجا ہے لیکن یہ آنکھ کیوں آج میری نم ہے

نئی امنگوں کو ساتھ لے کر رواں ہوں پھر جادۂ وفا پر
مگر ہے احساس نا مرادی کہ سہما سہما سا ہر قدم ہے

مری امیدوں کو روند کر اب مری خوشی کی ہے تم کو پروا
یہ کیا نیا روپ تم نے دھارا یہ کیا کوئی نت نیا بھرم ہے

تمہیں وہ لمحے تو یاد ہوں گے کہ جب تمہیں یاد تھے یہ فقرے
تمہیں مرے سر کا واسطہ ہے تمہیں مری جان کی قسم ہے

وہ مہرباں کیوں ہوئے ہیں مجھے پر وہ پوچھتے ہیں تو کہہ دو نیرؔ
حضور زندہ ہوں جی رہا ہوں بڑی نوازش بڑا کرم ہے