EN हिंदी
ترے رخ کا کسے سودا نہیں ہے | شیح شیری
tere ruKH ka kise sauda nahin hai

غزل

ترے رخ کا کسے سودا نہیں ہے

خواجہ محمد وزیر لکھنوی

;

ترے رخ کا کسے سودا نہیں ہے
گل لالہ تلک صحرا نشیں ہے

پھرا ہے آپ وہ مہ رو ہمارا
ترا اے آسماں شکوہ نہیں ہے

کہیں ایسا نہ ہو اٹھے نہ تلوار
یہی ڈر ہے کہ قاتل نازنیں ہے

نہ پوچھو میرے آنسو تم نہ پوچھو
کہے گا کوئی تم کو خوشہ چیں ہے

ادب سے پا برہنہ پھرتے ہیں ہم
جنوں فرش الٰہی یہ زمیں ہے

برا سب دشمنوں کا چاہتے ہیں
میں خوش ہوں جیسے دل اندوہ گیں ہے

رہے مضمون غم کی طرح اس میں
ہمارا گھر ہے یا بیت حزیں ہے

جہاں ہے جلوہ گر وہ غیرت‌ ماہ
الٰہی آسماں ہے یا زمیں ہے

بنایا تجھ کو ایسا خوب صورت
کہ نازاں تجھ پہ صورت آفریں ہے

ہیں عشق زلف میں اعضا بھی دشمن
ہمارا ہاتھ مار آستیں ہے

نہ نکلا بے ترے میں گھر سے باہر
نگہ تک چشم میں خلوت نشیں ہے

فلک جو چاہے ہم پر ظلم کر لے
ابھی تو ضبط‌‌ آہ آتشیں ہے

پڑا ہے تفرقہ بے تابیوں سے
وزیرؔ اب میں کہیں ہوں دل کہیں ہے