ترے پہلو میں ترے دل کے قریں رہنا ہے
میری دنیا ہے یہی مجھ کو یہیں رہنا ہے
کام جو عمر رواں کا ہے اسے کرنے دے
میری آنکھوں میں سدا تجھ کو حسیں رہنا ہے
دل کی جاگیر میں میرا بھی کوئی حصہ رکھ
میں بھی تیرا ہوں مجھے بھی تو کہیں رہنا ہے
آسماں سے کوئی اترا نہ صحیفہ نہ سہی
تو مرا دیں ہے مجھے صاحب دیں رہنا ہے
جیسے سب دیکھ رہے ہیں مجھے اس طرح نہ دیکھ
مجھ کو آنکھوں میں نہیں دل میں مکیں رہنا ہے
پھول مہکیں گے یوں ہی چاند یوں ہی چمکے گا
تیرے ہوتے ہوئے منظر کو حسیں رہنا ہے
میں تری سلطنت حسن کا باشندہ ہوں
اب مجھے اور کہیں جا کے نہیں رہنا ہے
غزل
ترے پہلو میں ترے دل کے قریں رہنا ہے
اشفاق حسین