ترے کوچے میں جو بیٹھا ہے پاگل
وہ دل سے ہاتھ دھو بیٹھا ہے پاگل
تصور میں تمہارا ساتھ پا کر
لو اپنے ہوش کھو بیٹھا ہے پاگل
تری خوشبو جدھر کو جا رہی ہے
اسی جانب ہی تو بیٹھا ہے پاگل
زمانے پر تو کھل کر ہنس رہا تھا
ترے چھوتے ہی رو بیٹھا ہے پاگل
اشارے عشق کی موجوں کے پا کر
بدن کشتی ڈبو بیٹھا ہے پاگل
تعارف یوں مرا دیتی ہے دنیا
چلے جاؤ کہ وو بیٹھا ہے پاگل
سخن ور فکر کے لمحوں میں اکثر
لگے ہے یوں کہ گو بیٹھا ہے پاگل
تمہارے در پہ کتنی مدتوں سے
نگاہیں پھیر لو بیٹھا ہے پاگل
مری آنکھوں کے زینے سے اتر کر
مرا دامن بھگو بیٹھا ہے پاگل
غزل
ترے کوچے میں جو بیٹھا ہے پاگل
ارشاد خان سکندر