EN हिंदी
ترے خیال نے احسان لا جواب کیا | شیح شیری
tere KHayal ne ehsan la-jawab kiya

غزل

ترے خیال نے احسان لا جواب کیا

مہندر پرتاپ چاند

;

ترے خیال نے احسان لا جواب کیا
نفس نفس کو مرے وقف اضطراب کیا

عدو کا حرف ملامت بنا مری شہرت
اسی نے خاک کے ذرے کو آفتاب کیا

تری نظر کو نظر لگ نہ جائے دنیا کی
بھرے جہاں میں جو میرا ہی انتخاب کیا

قدم قدم پہ رہی جستجوئے نام و نمود
اسی ہوس نے ہمیں عمر بھر خراب کیا

ازل کے دن سے اندھیرے مرا مقدر تھے
تری نظر نے مجھے رشک ماہتاب کیا

گلا کیا تھا تغافل کا چاندؔ کیوں اس سے
تجھی کو اشک ندامت نے آپ آب کیا