EN हिंदी
ترے حرماں نصیبوں کی بھی کیا تقدیر ہے ساقی | شیح شیری
tere hirman-nasibon ki bhi kya taqdir hai saqi

غزل

ترے حرماں نصیبوں کی بھی کیا تقدیر ہے ساقی

سلیمان آصف

;

ترے حرماں نصیبوں کی بھی کیا تقدیر ہے ساقی
بہ ہر صورت وہی زنداں وہی زنجیر ہے ساقی

شرارے زندگی کے دیکھتا ہوں راکھ میں پنہاں
مرے حق میں یہ خاک آشیاں اکسیر ہے ساقی

بہار آئی ہے گلشن میں مگر محسوس ہوتا ہے
نظارے سہمے سہمے ہیں فضا دلگیر ہے ساقی

خوش آئے گی بھلا کیسے وہ تیرے مے پرستوں کو
جو خاموشی حریف نالۂ شب گیر ہے ساقی

وہ آزادی قفس میں گیت جس کے گائے جاتے تھے
گلستاں میں وہی اب پاؤں کی زنجیر ہے ساقی

بہار آئی قفس کے در کھلے بادل اٹھے برسے
دعا لیکن ہماری تشنۂ تاثیر ہے ساقی

فقط اک جرم حق گوئی کے چلتے تیری محفل میں
ترے آصفؔ کی مستی موجب تعزیز ہے ساقی