ترے ہے زلف و رخ کی دید صبح و شام عاشق کا
یہی ہے کفر عاشق کا یہی اسلام عاشق کا
پیا پے قدح لبریز دے اے ساقی مستاں
تہی تجھ دور میں افسوس رہوے جام عاشق کا
ہر اک یاں منزل مقصود کو پہنچے ہے تجھ سے ہی
مگر اک خلق میں فرقہ ہے سو ناکام عاشق کا
کبھی معشوق کو مرتے نہ دیکھا در پہ عاشق کے
یہی باقی ہے سر معشوق کے الزام عاشق کا
ہوا ہے خط نصیرؔ آغاز اس مہ رو کے چہرے پر
دو چند اب یہ نظر آتا ہے کچھ انجام عاشق کا
غزل
ترے ہے زلف و رخ کی دید صبح و شام عاشق کا
شاہ نصیر