ترے احساس میں ڈوبا ہوا میں
کبھی صحرا کبھی دریا ہوا میں
تری نظریں ٹکی تھیں آسماں پر
ترے دامن سے تھا لپٹا ہوا میں
کھلی آنکھوں سے بھی سویا ہوں اکثر
تمہارا راستہ تکتا ہوا میں
خدا جانے کے دلدل میں غموں کے
کہاں تک جاؤں گا دھنستا ہوا میں
بہت پر خار تھی راہ محبت
چلا آیا مگر ہنستا ہوا میں
کئی دن باد اس نے گفتگو کی
کئی دن بعد پھر اچھا ہوا میں
غزل
ترے احساس میں ڈوبا ہوا میں
سراج فیصل خان