ترے دانت سارے سفید ہیں پئے زیب پان سے مل کر آ
نہیں دیکھے آج تک ابر میں مجھے اب دکھانے کو اختر آ
شب وعدہ تو اگر آئے ہے تو درنگ کیا ہے مرے گھر آ
کہ یہ آنکھیں لگ رہی در سے ہیں شب رشک مہ بخدا در آ
مرے سر پہ ہر گھڑی فاختہ کرے کام کیونکہ نہ ارے کا
قد دل ربا کے حضور تو نہ چمن میں بن کے صنوبر آ
مرے تن سے سر کو جدا کر اب نہیں خوں بہا کی مجھے طلب
کہ یہ تن یہ بار گراں ہے بس کہیں تیغ لے کے ستم گر آ
یہ مکاں ہیں دونوں ترے لیے نہیں غیر کا ہے یہاں گزر
جو تو چشم میں نہیں آئے ہے مرے دل میں یار سخنور آ
تری راہ دیکھوں میں تا کجا کہوں کس سے یہ کہ خبر ہی لا
مرا اس سے لے کے جواب خط کہیں جلد اڑ کے کبوتر آ
بجز ابر دے بت بادہ کش نہیں دل کے واسطے جائے خوش
کہ یہ شیشہ اور وہ طاق ہے تو نصیرؔ جا کے اسے دھر آ
غزل
ترے دانت سارے سفید ہیں پئے زیب پان سے مل کر آ
شاہ نصیر