ترے بدن کی نزاکتوں کا ہوا ہے جب ہم رکاب موسم
نظر نظر میں کھلا گیا ہے شرارتوں کے گلاب موسم
ہم اپنے گم گشتہ ولولوں پر خنک ہواؤں کے قہقہوں کا
جواب دیتے جو ساتھ لاتا ہمارا عہد شباب موسم
وہ ایک بنجر زمین گھر کی جو سن رہی تھی سبھی کے طعنے
خوشا کہ اس بار اس زمیں کو بھی دے گیا اک گلاب موسم
امیر لوگوں کی کوٹھیوں تک ترے غضب کی پہنچ کہاں ہے
فقط غریبوں کے جھونپڑوں تک ہے تیرا دست عتاب موسم
یہ برف پگھلے گی چوٹیوں سے پروں میں آئے گی پھر حرارت
بھریں گے اونچی اڑان پھر ہم رہے گا کب تک خراب موسم
غزل
ترے بدن کی نزاکتوں کا ہوا ہے جب ہم رکاب موسم
احتشام الحق صدیقی