EN हिंदी
ترے ابرو پہ بل آیا تو ہوتا | شیح شیری
tere abru pe bal aaya to hota

غزل

ترے ابرو پہ بل آیا تو ہوتا

پیر شیر محمد عاجز

;

ترے ابرو پہ بل آیا تو ہوتا
ذرا غیروں کو دھمکایا تو ہوتا

بجائے فرش میں آنکھیں بچھاتا
تو اپنے وعدے پر آیا تو ہوتا

سمجھتے فرش پر ہم چادر گل
ترا اے رشک گل سایا تو ہوتا

شکایت آئے گی اے جذب الفت
جنازے پر اسے لایا تو ہوتا

کیا تھا گر فلک تو نے سیہ بخت
تو میں اس ماہ کا سایا تو ہوتا

نہ ہوتا درد سر پھر تم کو عاجزؔ
سر اس کے در پہ ٹکرایا تو ہوتا