ترے ابرو پہ بل آیا تو ہوتا
ذرا غیروں کو دھمکایا تو ہوتا
بجائے فرش میں آنکھیں بچھاتا
تو اپنے وعدے پر آیا تو ہوتا
سمجھتے فرش پر ہم چادر گل
ترا اے رشک گل سایا تو ہوتا
شکایت آئے گی اے جذب الفت
جنازے پر اسے لایا تو ہوتا
کیا تھا گر فلک تو نے سیہ بخت
تو میں اس ماہ کا سایا تو ہوتا
نہ ہوتا درد سر پھر تم کو عاجزؔ
سر اس کے در پہ ٹکرایا تو ہوتا
غزل
ترے ابرو پہ بل آیا تو ہوتا
پیر شیر محمد عاجز