ترے آتے ہی سب دنیا جواں معلوم ہوتی ہے
خزاں رشک بہار جادواں معلوم ہوتی ہے
جنون سجدہ ریزی کا یہ عالم ہے معاذ اللہ
ہر اک چوکھٹ ترا ہی آستاں معلوم ہوتی ہے
اسے ہر اہل دل پہروں مزے لے لے کے سنتا ہے
مری بپتا حدیث دلبراں معلوم ہوتی ہے
کٹے ہیں دن بلاؤں کے سہارے جن اسیروں کے
انہیں بجلی بھی شاخ آشیاں معلوم ہوتی ہے
مآل زندگانی کی حقیقت کھل گئی جب سے
کسک دل کی متاع دو جہاں معلوم ہوتی ہے
خیال عیش کی پرچھائیں سے بھی دل لرزتا ہے
نگاہ حسن اب کیوں مہرباں معلوم ہوتی ہے
خدا شاید ہے میرے بھولنے والے بجز تیرے
مجھے تخلیق عالم رائیگاں معلوم ہوتی ہے
کسی کی جستجو میں وجدؔ اس منزل پہ پہنچا ہوں
جہاں منزل بھی گرد کارواں معلوم ہوتی ہے
غزل
ترے آتے ہی سب دنیا جواں معلوم ہوتی ہے
سکندر علی وجد