ترے آسماں کی زمیں ہو گیا ہوں
ہوا ہوں تو اپنے تئیں ہو گیا ہوں
ملی ہے جگہ دل میں تھوڑی سی اس کے
سمجھ لو کہ گوشہ نشیں ہو گیا ہوں
یہاں پر میں ہونا نہیں چاہتا تھا
مگر ہوتے ہوتے یہیں ہو گیا ہوں
ترے پاؤں پڑنے سے انکار کر دوں
میں اتنا تو خود سر نہیں ہو گیا ہوں
جہاں مجھ کو ہونے سے روکا تھا اس نے
نہیں باز آیا وہیں ہو گیا ہوں
مکاں جس کا نقشہ ابھی بن رہا ہے
میں فی الحال اس کا مکیں ہو گیا ہوں
توجہ کا طالب ہوں اس طرح سے بھی
اگر آپ کا نکتہ چیں ہو گیا ہوں
بڑھاپے سے اگلی یہ منزل ہے کوئی
جواں ہو گیا ہوں حسیں ہو گیا ہوں
اسے بھی ظفرؔ میری ہمت ہی سمجھو
کہیں ہو نہ پایا کہیں ہو گیا ہوں
غزل
ترے آسماں کی زمیں ہو گیا ہوں
ظفر اقبال