ترا یقین ہوں میں کب سے اس گمان میں تھا
میں زندگی کے بڑے سخت امتحان میں تھا
شجر شجر مری آمد کا منتظر موسم
میں برگ گل سا ہواؤں کی اک اڑان میں تھا
پٹک کے توڑ دیا جس نے تیشۂ جاں کو
میں جوئے شیر سا پنہاں اسی چٹان میں تھا
اندھیری رات میں سمت صدا پہ چھوڑ دیا
ہوس کا تیر جو اس جسم کی کمان میں تھا
اٹھا سکا نہ میں دست تہی سے پتھر بھی
متاع غیر سا وہ کانچ کی دوکان میں تھا
یہ دور علم و ہنر اس کو پڑھ نہیں پایا
صحیفہ دل کا مرا جانے کس زبان میں تھا

غزل
ترا یقین ہوں میں کب سے اس گمان میں تھا
ظفر غوری