ترا خیال مجھے اس طرح پکارتا ہے
کہ مندروں میں کوئی آرتی اتارتا ہے
ہلوریں لیتی ہے کچھ اس طرح تری یادیں
ندی میں جیسے کوئی کشتیاں اتارتا ہے
خموشیوں کے بچھونے پہ شب کے پچھلے پہر
ترا خیال نئی آرزو ابھارتا ہے
تری وفاؤں کے موسم بدلتے رہتے ہیں
مری وفا کا چمن بس تجھے نہارتا ہے
کچھ آہٹیں سی کہیں ہو رہی ہیں دل کے قریب
کوئی تو ہے جو مری بزم جاں سنوارتا ہے
مجھے تو اپنے عقیدوں کی پختگی ہے عزیز
نہیں یہ خوف کوئی سر مرا اتارتا ہے

غزل
ترا خیال مجھے اس طرح پکارتا ہے
جگدیش پرکاش