ترا حسن ہے وہ صہبا کہ کوئی مثال کیا دے
کبھی تشنگی بجھا دے کبھی تشنگی بڑھا دے
یہ جہاں ہے اک تماشہ کوئی دوست ہے نہ دشمن
وہی آگ روشنی دے وہی آشیاں جلا دے
یہ طریق دلبری ہے کہ ادائے دلنوازی
کسی جرم پر نوازے کسی جرم پر سزا دے
ابھی ظلمت خرد میں ہے وفا کی تابناکی
یہ چراغ بجھ نہ جائے کوئی اس کی لو بڑھا دے
یہ قدم قدم پہ ظلمت یہ روش روش اندھیرے
مری بے خودی کہاں ہے مجھے راستہ بتا دے
یہ تصور رہائی رہے کیوں نظر میں گوہرؔ
مجھے قید کرنے والے مرے بال و پر جلا دے

غزل
ترا حسن ہے وہ صہبا کہ کوئی مثال کیا دے
گوہر عثمانی