EN हिंदी
ترا ہی روپ نظر آئے جا بجا مجھ کو | شیح شیری
tera hi rup nazar aae ja-ba-ja mujhko

غزل

ترا ہی روپ نظر آئے جا بجا مجھ کو

وزیر آغا

;

ترا ہی روپ نظر آئے جا بجا مجھ کو
جو ہو سکے یہ تماشا نہ تو دکھا مجھ کو

کبھی تو کوئی فلک سے اتر کے پاس آئے
کبھی تو ڈسنے سے باز آئے فاصلہ مجھ کو

تلاش کرتے ہو پھولوں میں کیسے پاگل ہو
اڑا کے لے بھی گئی صبح کی ہوا مجھ کو

کسے خبر کہ صدا کس طرف سے آئے گی
کہاں سے آ کے اٹھائے گا قافلہ مجھ کو

مرا ہی نقش قدم تھا مرے تعاقب میں
وگرنہ لاکھ بلاتی تری صدا مجھ کو

سمیٹتا رہا خود کو میں عمر بھر لیکن
بکھیرتا رہا شبنم کا سلسلہ مجھ کو

گھلی جو رات کی خوشبو تو سازشی جاگے
دہکتی آنکھوں نے گھیرے میں لے لیا مجھ کو

ٹھہر سکی نہ اگر چاندنی تو کیا غم ہے
یہی بہت ہے کہ تو یاد آ گیا مجھ کو