ترا غم جب سے کم ہونے لگا ہے
ہمیں بھی اپنا غم ہونے لگا ہے
ہم اپنے حال سے ڈرنے لگے ہیں
کہ غم خواروں کو غم ہونے لگا ہے
ہماری راستی کے سامنے اب
ہمارا قد بھی خم ہونے لگا ہے
عطا کرتے ہیں جو اہل تواضع
وہ بادہ ہم کو سم ہونے لگا ہے
وجود آدمی سے پیشتر ہی
سر آدم قلم ہونے لگا ہے
کوئی چہرہ کوئی نغمہ کوئی جام
خفا دنیا سے دم ہونے لگا ہے
صنم پہلے خدا تھا اب خدا بھی
تراشیدہ صنم ہونے لگا ہے
غزل
ترا غم جب سے کم ہونے لگا ہے
خورشید الاسلام

