EN हिंदी
ترا غم اشک بن کر آ گیا ہے | شیح شیری
tera gham ashk ban kar aa gaya hai

غزل

ترا غم اشک بن کر آ گیا ہے

راحت سرحدی

;

ترا غم اشک بن کر آ گیا ہے
کہ پھر آگے سمندر آ گیا ہے

بظاہر خشک سالی ہے گھروں پر
مگر سیلاب اندر آ گیا ہے

نیا پیغام شیشے پر لکھوں گا
کہ میرے ہاتھ پتھر آ گیا ہے

سہارا کیا دیا گرتے مکاں کو
کہ ملبہ میرے اوپر آ گیا ہے

یہاں پر بھی وہی صحرا ہے راحتؔ
میں سمجھا تھا مرا گھر آ گیا ہے