طلسم خواب سے میرا بدن پتھر نہیں ہوتا
مری جب آنکھ کھلتی ہے میں بستر پر نہیں ہوتا
یقیں آتا نہیں تو مجھ کو یا مہتاب کو دیکھو
کہ رات اس کی بھی کٹ جاتی ہے جس کا گھر نہیں ہوتا
جدھر دیکھوں ادھر ہی دیکھتا رہتا ہوں پہروں تک
مجھے اطراف کا خالی ورق ازبر نہیں ہوتا
کھجوریں اور پانی لے کے آگے بڑھتا جاتا ہوں
مگر یہ کوہ امکاں ہے کہ مجھ سے سر نہیں ہوتا
کم از کم مجھ سے دنیا کو شکایت تو نہیں ہوگی
میں اس جیسا ہی بن جاؤں اگر بہتر نہیں ہوتا
جواز اپنا بناتا ہوں کسی نادیدہ خطے میں
جہاں میری ضرورت ہو وہاں اکثر نہیں ہوتا
بہاتا ہوں کہیں اپنے سفال بے مرکب کو
میں گریہ کے دنوں میں چاک دنیا پر نہیں ہوتا
گلا تو خیر کیا ہوگا بس اتنا تم سے کہنا ہے
تمہاری عمر میں کوئی ستم پرور نہیں ہوتا
تو پھر یوں ہے کہ میں نے اس کو چاہا ہی نہیں تابشؔ
اگر اس کی شباہت کا گماں مجھ پر نہیں ہوتا
غزل
طلسم خواب سے میرا بدن پتھر نہیں ہوتا
عباس تابش