EN हिंदी
تیرہ بختوں کو کرے ہے نالۂ غمگیں خراب | شیح شیری
tira-baKHton ko kare hai nala-e-ghamgin KHarab

غزل

تیرہ بختوں کو کرے ہے نالۂ غمگیں خراب

ولی عزلت

;

تیرہ بختوں کو کرے ہے نالۂ غمگیں خراب
جس طرح ہو جا صبا سے کاکل مشکیں خراب

جوں نسیم صبح غنچے گل کے سب برباد ہیں
سرد مہری سے بتوں کی ہیں دل رنگیں خراب

بے دماغی مت کر اے ظالم کہ جوں موج و حباب
دل مرا کر دے ہے پل میں ابرو پر چیں خراب

جوں جلے ہے شمع کا مشت زر اور تسبیح اشک
جس طرح سرکش کا ہے دنیا خراب اور دیں خراب

تھا بنا عزلتؔ وہ فولاد دل پرویز سے
تب تو تیشے نے کیا یوں خانۂ شیریں خراب