تیر چلے پہ نہ آنا کہ خطا ہو جانا
لب تک آتے ہوئے شکوے کا دعا ہو جانا
یاد ہے اس بت کافر کا خفا ہو جانا
اور مرا بھول کے مائل بہ دعا ہو جانا
حیرت انگیز ہے نقاش ازل کے ہاتھوں
میری تصویر کا تصویر فنا ہو جانا
دست تقدیر میں شمشیر جفا دینا ہے
خود بہ خود بندۂ تسلیم و رضا ہو جانا
اس کی افتاد پہ خورشید کی رفعت قرباں
جس کو بھایا ترا نقش کف پا ہو جانا
رونق بزم ہے شیون سے تو شیون ہی سہی
ہم صفیران چمن پھر نہ خفا ہو جانا
داور حشر کا انصاف اشارے ان کے
بس یہی ہے کسی بندے کا خدا ہو جانا
غزل
تیر چلے پہ نہ آنا کہ خطا ہو جانا
حفیظ جالندھری