تیر برسے کبھی خنجر آئے
یہ مقامات بھی اکثر آئے
شہر میں آگ لگی ہے اپنے
جو بھی آئے وہ سنبھل کر آئے
پھر تباہی کی طرف ہے دنیا
پھر ضرورت ہے پیمبر آئے
وہ تو رہزن کے بھی رہزن نکلے
ہم تو سمجھے تھے کہ رہبر آئے
شہر میں جب کوئی ہنگامہ ہوا
لوگ کچھ بھیس بدل کر آئے
آپ چپ رہے کے بھلے بن بیٹھے
سارے الزام ہمیں پر آئے
غزل
تیر برسے کبھی خنجر آئے
انجنا سندھیر