EN हिंदी
تھوڑی دیر اے ساقی بزم میں اجالا ہے | شیح شیری
thoDi der ai saqi bazm mein ujala hai

غزل

تھوڑی دیر اے ساقی بزم میں اجالا ہے

سلام ؔمچھلی شہری

;

تھوڑی دیر اے ساقی بزم میں اجالا ہے
جام خالی ہونے تک چاند ڈھلنے والا ہے

صبح کی حسیں کرنیں ناگ بن کے ڈس لیں گی
میں انہیں سمجھتا ہوں میں نے ان کو پالا ہے

بزم نو کی شمعوں کو یہ خبر نہیں ہوگی
کس نے ظلمت شب کو روشنی میں ڈھالا ہے

کس نے خواب انساں کے نقرئی سفینے کو
سخت تر تلاطم کی زد میں بھی سنبھالا ہے

لوگ ہنس کے کہہ دیں گے میں خراب صہبا تھا
مے کدہ یہ خوش ہوگا اس کا بول بالا ہے

میری فکر کی خوشبو قید ہو نہیں سکتی
یوں تو میرے ہونٹوں پر مصلحت کا تالا ہے

میری موت اے ساقی ارتقا ہے ہستی کا
اک سلامؔ جاتا ہے ایک آنے والا ہے