EN हिंदी
ٹھکانا ہے کہیں جائیں کہاں ناچار بیٹھے ہیں | شیح شیری
Thikana hai kahin jaen kahan na-chaar baiThe hain

غزل

ٹھکانا ہے کہیں جائیں کہاں ناچار بیٹھے ہیں

امداد امام اثرؔ

;

ٹھکانا ہے کہیں جائیں کہاں ناچار بیٹھے ہیں
اجازت جب نہیں در کی پس دیوار بیٹھے ہیں

یہ مطلب ہے کہ محفل میں منائے اور من جائیں
وہ میرے چھیڑنے کو غیر سے بیزار بیٹھے ہیں

خریدار آ رہے ہیں ہر طرف سے نقد جاں لے کر
وہ یوسف بن کے بکنے کو سر بازار بیٹھے ہیں

اچانک لے نہ لوں بوسہ یہ کھٹکا ان کے دل میں ہے
مرے پہلو میں بیٹھے ہیں مگر ہشیار بیٹھے ہیں

تمہارے عاشقوں میں بے قراری کیا ہی پھیلی ہے
جدھر دیکھو جگر تھامے ہوئے دو چار بیٹھے ہیں

قیامت ہے ستم مردے پہ بھی ان کو گوارا ہے
مرا لاشہ اٹھانے کے لئے اغیار بیٹھے ہیں

لب بام آ کے دکھلا وہ تماشا طور کا تم بھی
بڑے موقعے سے در پر طالب دیدار بیٹھے ہیں

اثرؔ کیوں کر نہ جانوں اس کے در کو قبلۂ عالم
اسی جانب کئی رخ کافر و دیں دار بیٹھے ہیں