EN हिंदी
تھی ظرف وضو میں کوئی شے پی گئے کیا آپ | شیح شیری
thi zarf-e-wazu mein koi shai pi gae kya aap

غزل

تھی ظرف وضو میں کوئی شے پی گئے کیا آپ

ریاضؔ خیرآبادی

;

تھی ظرف وضو میں کوئی شے پی گئے کیا آپ
اے شیخ یہاں کون ہے میں چور ہوں یا آپ

دیوانوں کے سر ہو گئی کیا زلف دوتا آپ
وہ جا کے گلے اپنے لگا لائے بلا آپ

ہنس ہنس کے مجھے آپ عبث کوس رہے ہیں
رو رو کے مرے واسطے مانگیں گے دعا آپ

اڑتے بھی اگر ہم تو قفس لے کے نہ اڑتے
صیاد قفس سوئے چمن اڑ کے چلا آپ

جو اٹھ نہیں سکتے تھے گئے اٹھ کے لحد میں
بیٹھے رہیں اب گھر میں لئے عذر حنا آپ

جاتے نہیں ہم مست کبھی اٹھ کے حرم سے
آتی ہے یہاں اڑ کے مئے ہوش ربا آپ

کیوں پھر گئیں کمبخت کی آنکھیں دم آخر
رکھتے تھے بہت غیر سے امید وفا آپ

آواز مری بیٹھی ہے اے حضرت زاہد
کیوں بہر اذاں آج دباتے ہیں گلا آپ

ہلکا سا غلاف ایک تھا صیاد قفس پر
تھی اور نہ کچھ روک رکی مجھ سے صبا آپ

ہم دل میں اتاریں گے یہ کہتی ہیں نگاہیں
آ جائیں کسی طرح لب بام ذرا آپ

قابو کا تمہارے بھی نہیں جوش جوانی
بے چھیڑے ہوئے ٹوٹتے ہیں بند قبا آپ

محتاط ریاضؔ آپ جوانی میں بہت ہیں
پیری میں بھی لوٹیں گے جوانی کا مزا آپ