تھی نظارے کی گھات آنکھوں میں
کٹ گئی ساری رات آنکھوں میں
دیکھو ان آنکھوں کی سخن گوئی
ہے شرارت کی بات آنکھوں میں
تلخ باتیں ہیں میٹھی نظریں ہیں
زہر منہ میں بنات آنکھوں میں
رونا قسمت میں ہے مروں کیوں کر
ہے یہ آب حیات آنکھوں میں
وہ جو دیکھے جیوں نہ دیکھے مروں
ہے حیات و ممات آنکھوں میں
دیکھیے چشم عفو رحمت سے
مہرؔ کی ہے نجات آنکھوں میں
غزل
تھی نظارے کی گھات آنکھوں میں
سید آغا علی مہر