تھے دامن حیات پہ اک داغ ہم، گئے
لیکن یہ کیا ہوا تری زلفوں کے خم گئے
اک احتجاج سے ہیں عبارت حیات و موت
روتے ہوئے جو آئے تو با چشم نم گئے
طے کر سکا نہ وسعت دشت وفا کوئی
دعوے جنہیں بہت تھے قدم دو قدم گئے
کچھ دیر کھیلتے رہے موج بلا سے ہم
کچھ دور ساتھ ساتھ وجود و عدم گئے
ٹھہرے ہوئے ہیں برگ خزاں دیدہ کی طرح
سنکی ہوا ذرا بھی تو سمجھو کہ ہم گئے
یہ ماجرا ہے کیا کہ زمیں ڈولنے لگی
یہ کیا ہوا کہ چلتے ہوئے لوگ تھم گئے

غزل
تھے دامن حیات پہ اک داغ ہم، گئے
خاور رضوی