EN हिंदी
تھکی ہوئی مامتا کی قیمت لگا رہے ہیں | شیح شیری
thaki hui mamta ki qimat laga rahe hain

غزل

تھکی ہوئی مامتا کی قیمت لگا رہے ہیں

معراج فیض آبادی

;

تھکی ہوئی مامتا کی قیمت لگا رہے ہیں
امیر بیٹے دعا کی قیمت لگا رہے ہیں

میں جن کو انگلی پکڑ کے چلنا سکھا چکا ہوں
وہ آج میرے عصا کی قیمت لگا رہے ہیں

مری ضرورت نے فن کو نیلام کر دیا ہے
تو لوگ میری انا کی قیمت لگا رہے ہیں

میں آندھیوں سے مصالحت کیسے کر سکوں گا
چراغ میرے ہوا کی قیمت لگا رہے ہیں

یہاں پہ معراجؔ تیرے لفظوں کی آبرو کیا
یہ لوگ بانگ درا کی قیمت لگا رہے ہیں