تھکے لوگوں کو مجبوری میں چلتے دیکھ لیتا ہوں
میں بس کی کھڑکیوں سے یہ تماشے دیکھ لیتا ہوں
کبھی دل میں اداسی ہو تو ان میں جا نکلتا ہوں
پرانے دوستوں کو چپ سے بیٹھے دیکھ لیتا ہوں
چھپاتے ہیں بہت وہ گرمیٔ دل کو مگر میں بھی
گل رخ پر اڑی رنگت کے چھینٹے دیکھ لیتا ہوں
کھڑا ہوں یوں کسی خالی قلعے کے صحن ویراں میں
کہ جیسے میں زمینوں میں دفینے دیکھ لیتا ہوں
منیرؔ اندازۂ قعر فنا کرنا ہو جب مجھ کو
کسی اونچی جگہ سے جھک کے نیچے دیکھ لیتا ہوں
غزل
تھکے لوگوں کو مجبوری میں چلتے دیکھ لیتا ہوں
منیر نیازی