تھکن غالب ہے دم ٹوٹے ہوئے ہیں
سفر جاری قدم ٹوٹے ہوئے ہیں
بظاہر تو ہیں سالم جسم و جاں سے
مگر اندر سے ہم ٹوٹے ہوئے ہیں
ادھورے ہیں یہاں سارے کے سارے
سبھی تو بیش و کم ٹوٹے ہوئے ہیں
برا ہو اعتماد باہمی کا
کہ سب قول و قسم ٹوٹے ہوئے ہیں
تعلق ٹوٹنے کو ہے جہاں سے
چلو کہ بند غم ٹوٹے ہوئے ہیں
خدا کا گھر نہ بخشا ظالموں نے
کئی دیر و حرم ٹوٹے ہوئے ہیں
انہیں منصف نہیں قاتل کہو تم
کہ سب ان کے قلم ٹوٹے ہوئے ہیں

غزل
تھکن غالب ہے دم ٹوٹے ہوئے ہیں
غنی اعجاز