ٹھہرے تو کہاں ٹھہرے آخر مری بینائی
ہر شخص تماشا ہے ہر شخص تماشائی
یہ حسن کا دھوکا بھی دل کے لئے کافی تھا
چھونے کے لئے کب تھی مہتاب کی اونچائی
آئینے کی حاجت سے انکار نہیں لیکن
اس درجہ نہ تھا پہلے دستور خود آرائی
سرمایۂ دل آخر اور اس کے سوا کیا ہے
ہر درد سے رشتہ ہے ہر غم سے شناسائی
پتھر سا ہٹے دل سے کچھ مجھ کو بھی کہنے دو
گو تلخ تو گزرے گی تم کو مری سچائی
شکوہ نہ کریں ہم بھی بھرپور توجہ کا
دیکھا نہ کرو تم بھی ہر زخم کی گہرائی
دنیا سے نرالا ہے اسرارؔ چلن اپنا
تنہائی میں محفل ہے محفل میں ہے تنہائی

غزل
ٹھہرے تو کہاں ٹھہرے آخر مری بینائی
اسرارالحق اسرار